Pages

Jan 27, 2019

یہ تو پولیس کاکام ہ


ایک سبزی والے نے مجھے کہا آپ پولیس والے ہیں ایک بات کا جواب دیں ۔یہ منشیات سرعام کیوں فروخت ہوتی ہے۔میں نے جواب دیا اس کے ذمےدار تم ہو بہت حیران ہواپوچھنے لگا وہ کیسے۔ میں نے کہا آج عہد کرو کہ منشیات فروشوں کو کبھی سبزی نہیں دو گے۔ تو کہنے لگا مجھے کیا ضرورت ہے گندے لوگوں سے الجھنےکی یہ پولیس کا کام ہے ۔
میرے ایک دوست نے کہا فلاں بندہ بیٹھک میں جوا کرواتا ہے اور محلے کی پنچائتوں کے فیصلے بھی کرتا ہے کوئی بولنے والا نہیں بلکہ ہر کوئی اس کی عزت کرتا ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے آج کے بعد عہد کرو کہ اسے اس کی اوقات دکھاؤگے اگر وہ کسی پنچائیت میں آۓتو تم یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ گے کہ جہاں جواری سرپنچ ہوں میں ایسی پنچائیت کو نہیں مانتا تو وہ کہنے لگا کیا ضرورت ہے گندے لوگوں کے منہ لگنے کی یہ پولیس کا کام ہے۔
چاچا نذر نے بہت دکھی ہوتے ہوۓ کہا بیٹا اب محلے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ محلے کی فلاں نکڑ پہ ایک کراۓ داروں کا گھر ہے وہاں جسم فروش عورتوں کا آنا جانا ہے مجھے لگتا ہے میرا بیٹا بھی وہاں جاتا ہے کچھ کرو پُتر۔میں نےکہا چاچا محلہ اکٹھا کرو درخواست لکھو اہل محلہ سے دستخط کرواؤ اور ڈی ایس پی صاحب کے دفتر پیش ہو جاؤ ۔چاچا نذر کہنے لگا پُتر ہم کاروباری لوگ ہیں ایسی عورتوں سے الجھنا مناسب نہیں یہ پولیس کا کام ہے ۔ میں کورٹ کچہری کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا اور پھر کون گندی مندی عورتوں سے الجھتا پھرے۔
ہر برائی سے لڑناصرف پولیس کا کام ہے ہم اندھے گونگے بہرے اور شریف لوگ ہیں ہم برے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے کیوں کہ ہمیں کیا ہم تو اس وقت تک چپ رہتے ہیں جب تک ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ہم کسی کا جلتا گھر دیکھ کر صرف آہ بھرتے ہیں اور اپنی دنیا میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ہم منشیات فروشوں کو اس وقت تک برا نہیں کہتے جب تک ہمارا اپما لخت جگر اس لعنت کا عادی نہ ہوجاۓ۔محلے کی کسی بیٹھک میں جواریوں کا بیٹھنا اس وقت تک ہمیں برا نہیں لگتا جب تک ہمارے اپنے گھر کے برتن جوۓ کی نذرنہ ہوجائیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے شراب پی کر گندی عورتوں کے کوٹھوں میں داخل ہوتے اور منہ کالا کر کے باہر آتے ہیں لیکن ہمیں کیا۔ہم کسی کی لڑائی کیوں لڑیں ۔
ہم تو شریف لوگ ہیں

محبتیں یاد رکھنا



بارش میں محلے کے دوستوں کے ساتھ سڑکوں پر کرکٹ کھیلی. بسنت کے موسم میں پتنگیں اڑائیں،(گڈے) لٹو بھی چلائے، گلی ڈنڈا بھی کھیلا، ڈیپو گرم بھی کھیلا اور اپنے والدین بہن بھائی اور رشتے داروں کے ساتھ کیرم، لڈو، بھی کھیلا.
ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے محلے کی لڑکیوں کے ساتھ بھی کھیلا جھولے بھی جھولے اور انکی گڑیوں کی شادی میں شرکت بھی کی.
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے لالٹین (بتی)کی روشنی میں کہانیاں بھی پڑھی۔
جنہوں نے اپنے پیاروں کیلیئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر پڑھا۔بلکہ گھر سے بوری ، توڑا لے کر سکول جاتے اور اس پر بیٹھتے۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔بغیر بجلی کے ٹیوب ویل دیکھے نہائے
محلے گاوں کے درخت سے آم اور امرود بھی توڑ کر کھائے.
پڑوس کے بزرگوں سے ڈانٹ بھی کھائی لیکن پلٹ کر کبھی بدمعاشی نہیں دکھائی.
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔اور گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بهیجے.
ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں کیونکہ
ہم وہ آخری لوگ ہیں
جو محلے کے ہر خوشی اور غم میں ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے ہوئے.
ہم وہ لوگ ہیں جو گلے میں مفلر لٹکا کے خود کو بابو سمجھتے تھے۔
ہم وہ دلفریب لوگ ہیں
جنہوں نے شبنم اور ندیم کی ناکام محبت پہ آنسو بہائے اور انکل سرگم کو دیکھ کے خوش ہوئے ۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے ٹی وی کے انٹینے ٹھیک کیے فلم دیکھنے کے لیے ہفتہ بھر انتظار کرتے تھے
ہم وہ بہترین لوگ ہیں
جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔
ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں
جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئی بھی نہیں۔
ہم وہ لوگ ہیں جو۔
رات کو چارپائی گھر سے باہر لے جا کر کھلی فضاء زمینوں میں سوئے دن کو سب محلے والے گرمیوں میں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر گپیں لگاتے مگر وہ آخری تھے ہم
کبھی وہ بھی زمانے تھے
سب چھت پر سوتے تھے
اینٹوں پر پانی کا
چھڑکاؤ ہوتا تھا
ایک سٹینڈ والا پنکھا
بھی چھت پر ہوتا تھا
لڑنا جھگڑنا سب کا
اس بات پر ہوتا تھا
کہ پنکھے کے سامنے
کس کی منجی نے ہونا تھا
سورجُ کے نکلتے ہی
آنکھ سب کی کھلتی تھی
ڈھیٹ بن کر پھر بھی
سب ہی سوئے رہتے تھے
وہ آدھی رات کو کبھی
بارش جو آتی تھی
پھر اگلے دن بھی منجی
گیلی ہی رہتی تھی
وہ چھت پر سونے کے
سب دور ہی بیت گئے
منجیاں بھی ٹوٹ گئیں
رشتے بھی چھوٹ گئے
بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔
کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل جاہل زمانہ آ گیا۔۔

May 1, 2017

لپٹے کبھی شانوں سے کبھی زُلف سے اُلجھے

کیوں ڈُھونڈتا رہتا ہے سہارے تیرا آنچل

لپٹے کبھی شانوں سے کبھی زُلف سے اُلجھے

کیوں ڈُھونڈتا رہتا ہے سہارے تیرا آنچل