ایک سبزی والے نے مجھے کہا آپ پولیس والے ہیں ایک بات کا جواب دیں ۔یہ منشیات سرعام کیوں فروخت ہوتی ہے۔میں نے جواب دیا اس کے ذمےدار تم ہو بہت حیران ہواپوچھنے لگا وہ کیسے۔ میں نے کہا آج عہد کرو کہ منشیات فروشوں کو کبھی سبزی نہیں دو گے۔ تو کہنے لگا مجھے کیا ضرورت ہے گندے لوگوں سے الجھنےکی یہ پولیس کا کام ہے ۔
میرے ایک دوست نے کہا فلاں بندہ بیٹھک میں جوا کرواتا ہے اور محلے کی پنچائتوں کے فیصلے بھی کرتا ہے کوئی بولنے والا نہیں بلکہ ہر کوئی اس کی عزت کرتا ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے آج کے بعد عہد کرو کہ اسے اس کی اوقات دکھاؤگے اگر وہ کسی پنچائیت میں آۓتو تم یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ گے کہ جہاں جواری سرپنچ ہوں میں ایسی پنچائیت کو نہیں مانتا تو وہ کہنے لگا کیا ضرورت ہے گندے لوگوں کے منہ لگنے کی یہ پولیس کا کام ہے۔
چاچا نذر نے بہت دکھی ہوتے ہوۓ کہا بیٹا اب محلے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ محلے کی فلاں نکڑ پہ ایک کراۓ داروں کا گھر ہے وہاں جسم فروش عورتوں کا آنا جانا ہے مجھے لگتا ہے میرا بیٹا بھی وہاں جاتا ہے کچھ کرو پُتر۔میں نےکہا چاچا محلہ اکٹھا کرو درخواست لکھو اہل محلہ سے دستخط کرواؤ اور ڈی ایس پی صاحب کے دفتر پیش ہو جاؤ ۔چاچا نذر کہنے لگا پُتر ہم کاروباری لوگ ہیں ایسی عورتوں سے الجھنا مناسب نہیں یہ پولیس کا کام ہے ۔ میں کورٹ کچہری کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا اور پھر کون گندی مندی عورتوں سے الجھتا پھرے۔
ہر برائی سے لڑناصرف پولیس کا کام ہے ہم اندھے گونگے بہرے اور شریف لوگ ہیں ہم برے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے کیوں کہ ہمیں کیا ہم تو اس وقت تک چپ رہتے ہیں جب تک ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ہم کسی کا جلتا گھر دیکھ کر صرف آہ بھرتے ہیں اور اپنی دنیا میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ہم منشیات فروشوں کو اس وقت تک برا نہیں کہتے جب تک ہمارا اپما لخت جگر اس لعنت کا عادی نہ ہوجاۓ۔محلے کی کسی بیٹھک میں جواریوں کا بیٹھنا اس وقت تک ہمیں برا نہیں لگتا جب تک ہمارے اپنے گھر کے برتن جوۓ کی نذرنہ ہوجائیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے شراب پی کر گندی عورتوں کے کوٹھوں میں داخل ہوتے اور منہ کالا کر کے باہر آتے ہیں لیکن ہمیں کیا۔ہم کسی کی لڑائی کیوں لڑیں ۔
ہم تو شریف لوگ ہیں
میرے ایک دوست نے کہا فلاں بندہ بیٹھک میں جوا کرواتا ہے اور محلے کی پنچائتوں کے فیصلے بھی کرتا ہے کوئی بولنے والا نہیں بلکہ ہر کوئی اس کی عزت کرتا ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے آج کے بعد عہد کرو کہ اسے اس کی اوقات دکھاؤگے اگر وہ کسی پنچائیت میں آۓتو تم یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ گے کہ جہاں جواری سرپنچ ہوں میں ایسی پنچائیت کو نہیں مانتا تو وہ کہنے لگا کیا ضرورت ہے گندے لوگوں کے منہ لگنے کی یہ پولیس کا کام ہے۔
چاچا نذر نے بہت دکھی ہوتے ہوۓ کہا بیٹا اب محلے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ محلے کی فلاں نکڑ پہ ایک کراۓ داروں کا گھر ہے وہاں جسم فروش عورتوں کا آنا جانا ہے مجھے لگتا ہے میرا بیٹا بھی وہاں جاتا ہے کچھ کرو پُتر۔میں نےکہا چاچا محلہ اکٹھا کرو درخواست لکھو اہل محلہ سے دستخط کرواؤ اور ڈی ایس پی صاحب کے دفتر پیش ہو جاؤ ۔چاچا نذر کہنے لگا پُتر ہم کاروباری لوگ ہیں ایسی عورتوں سے الجھنا مناسب نہیں یہ پولیس کا کام ہے ۔ میں کورٹ کچہری کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا اور پھر کون گندی مندی عورتوں سے الجھتا پھرے۔
ہر برائی سے لڑناصرف پولیس کا کام ہے ہم اندھے گونگے بہرے اور شریف لوگ ہیں ہم برے لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے کیوں کہ ہمیں کیا ہم تو اس وقت تک چپ رہتے ہیں جب تک ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ہم کسی کا جلتا گھر دیکھ کر صرف آہ بھرتے ہیں اور اپنی دنیا میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ہم منشیات فروشوں کو اس وقت تک برا نہیں کہتے جب تک ہمارا اپما لخت جگر اس لعنت کا عادی نہ ہوجاۓ۔محلے کی کسی بیٹھک میں جواریوں کا بیٹھنا اس وقت تک ہمیں برا نہیں لگتا جب تک ہمارے اپنے گھر کے برتن جوۓ کی نذرنہ ہوجائیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے شراب پی کر گندی عورتوں کے کوٹھوں میں داخل ہوتے اور منہ کالا کر کے باہر آتے ہیں لیکن ہمیں کیا۔ہم کسی کی لڑائی کیوں لڑیں ۔
ہم تو شریف لوگ ہیں